01/Jan/2019
News Viewed 1907 times
ابھی دنیا جعلی خبروں کے چنگل سے آزاد نہیں ہوئی تھی کہ یہ این ویڈیا سمیت کئی کمپنیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے خصوصی الگورتھم اور کمپیوٹرپروگراموں نے ہزاروں لاکھوں چہروں کے ڈیٹا بیس کو دیکھتے ہوئے ایسے چہرے بنائے ہیں جو دنیا میں کہیں وجود نہیں رکھتے۔ اس سے بڑھ کر ان چہروں کو ماڈلنگ کےلیے بھی تجرباتی طور پر استعمال کیا گیا ہے, اس کے لیے این ویڈیا نے جو تصاویر جاری کی ہیں انہیں پہچاننا بہت مشکل ہے۔ اس کے لیے الگورتھم ( ایک طرح کے سافٹ ویئر) کی ایک بالکل نئی قسم تیار کی گئی ہے جسے جنریٹوو ایڈوسریئل نیٹ ورک یا جی اے این کا نام دیا گیا ہے۔ یہ الگورتھم کو دوحصوں میں کام کرتا ہے ۔ ایک حصہ جعلی و خیالی چہرے کو پکڑتا ہے تو دوسرا اسے بہتر سے بہتر بنا کر پہلے والے حصے کو دھوکا دینا چاہتا ہے۔
آگے بھی پڑھیں: 2019 میں خوش رہنے کے 10ٹوٹکے
واضح رہے کہ الگورتھم کے ڈیٹا بیس میں لباس اور پس منظر( بیک گراؤنڈ) کی تصاویر کا ڈیٹا بیس نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اسی بنا پر جعلی تصاویر کا پس منظر عجیب، گڈمڈ اور نہ سمجھنے والا ہوتا ہے, اگر ایک دستانہ دوسرے پر رکھا جائے تو وہ اس پر چسپاں ہوجاتا ہے اور یہ کیفیت سِمٹری کہلاتی ہے۔